بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
by جلیل مانکپوری

بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی

وہ سنورتے ہیں مجھے اس کی ہے فکر
آرزو کس کی نکالی جائے گی

دل لیا پہلی نظر میں آپ نے
اب ادا کوئی نہ خالی جائے گی

آتے آتے آئے گا ان کو خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی

کیا کہوں دل توڑتے ہیں کس لیے
آرزو شاید نکالی جائے گی

گرمئ نظارہ بازی کا ہے شوق
باغ سے نرگس نکالی جائے گی

دیکھتے ہیں غور سے میری شبیہ
شاید اس میں جان ڈالی جائے گی

اے تمنا تجھ کو رو لوں شام وصل
آج تو دل سے نکالی جائے گی

فصل گل آئی جنوں اچھلا جلیلؔ
اب طبیعت کچھ سنبھالی جائے گی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse