بات دل کی زبان پر آئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بات دل کی زبان پر آئی
by ریاض خیرآبادی

بات دل کی زبان پر آئی
آفت اب میری جان پر آئی

آرزو کیوں زبان پر آئی
ان کی زلف اڑ کے کان پر آئی

کھنچتے ہی اڑ گئی وہ بادہ فروش
چوکھی مے کب دکان پر آئی

ہو گئی اونچی ان کے بام سے آہ
آفت اب آسمان پر آئی

کی فرشتوں نے جب صراحت جرم
ہنسی ان کے بیان پر آئی

جب چلی آسماں سے کوئی بلا
سیدھی میرے مکان پر آئی

غیر کا ساز بن کے راز رہا
بات سب پاسبان پر آئی

روکے رکتا نہیں ہے سیل سرشک
اب تباہی مکان پر آئی

آئی بوتل بھی میکدے سے ریاضؔ
جب گھٹا آسمان پر آئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse