اے گل نو دمیدہ کے مانند
Appearance
اے گل نو دمیدہ کے مانند
ہے تو کس آفریدہ کے مانند
ہم امید وفا پہ تیری ہوئے
غنچۂ دیر چیدہ کے مانند
خاک کو میری سیر کر کے پھرا
وہ غزال رمیدہ کے مانند
سر اٹھاتے ہی ہو گئے پامال
سبزۂ نو دمیدہ کے مانند
نہ کٹے رات ہجر کی جو نہ ہو
نالہ تیغ کشیدہ کے مانند
ہم گرفتار حال ہیں اپنے
طائر پر بریدہ کے مانند
دل تڑپتا ہے اشک خونیں میں
صید در خوں تپیدہ کے مانند
تجھ سے یوسف کو کیونکے نسبت دیں
کب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندۂ زر خریدہ کے مانند
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |