اے ظالم ترے جب سے پالے پڑے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے ظالم ترے جب سے پالے پڑے
by مرزا جواں بخت جہاں دار

اے ظالم ترے جب سے پالے پڑے
ہمیں اپنے جینے کے لالے پڑے

پھرے ڈھونڈتے پا برہنہ تجھے
یہاں تک کہ پاؤں میں چھالے پڑے

کیا ہے یہ طغیاں مرے اشک نے
کہ بہتے ہیں دنیا میں نالے پڑے

چلا غیر پر نئیں یہ تیر نگاہ
ہماری ہی چھاتی پہ بھالے پڑے

ہمیں کیوں کہ وہ شوخ بالے نہ دے
کہ اب کان میں کان بالے پڑے

مرا خون دل یوں بہا دشت میں
کہ جنگل میں لوہو کے تھالے پڑے

جہاں دارؔ غم ہے کسی لالہ رو کا
جو دل پر ترے داغ کالے پڑے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse