اے صنم طالب نہیں وہ خلد سے گلزار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے صنم طالب نہیں وہ خلد سے گلزار کا
by جمیلہ خدا بخش

اے صنم طالب نہیں وہ خلد سے گلزار کا
مبتلا کو چاہیے سایہ تری دیوار کا

میہماں ہے کوئی دم کا یا کوئی ساعت کا وہ
حال اب دیکھا نہیں جاتا ترے بیمار کا

خوب صورت گوہر خوش آب کی ہر اک لڑی
سلسلہ کیسا بندھا ہے آنسوؤں کے تار کا

گھر کیا ہے اے صنم اس میں تری تصویر نے
بند ہونا غیر ممکن دیدۂ دیدار کا

زندگانی کا مزا کیا کیا نہیں دکھلا گیا
اس مرے دل کے مکاں میں چھپ کے آنا یار کا

کیجیے نذر بتاں اب شوق سے ایمان و دل
کیا پہننا سہل سمجھا آپ نے زنار کا

کھول کر پر کیف آنکھیں دیکھتے ہیں وہ ادھر
لیجئے وہ کھل گیا اب خانۂ خمار کا

دیکھنے کو تاب کیا ہو طالب دیدار کا
نور سے شمس و قمر میں تیرے ہی رخسار کا

عاصیوں کے جرم کو وہ حشر میں افشا کرے
اے جمیلہؔ کام یہ ہرگز نہیں ہشیار کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.