اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
by حیدر علی آتش

اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے

تیغ بے آب ہے نے بازوئے قاتل کمزور
کچھ گراں جانی ہے کچھ موت نے فرصت دی ہے

اس قدر کس کے لیے یہ جنگ و جدل اے گردوں
نہ نشاں مجھ کو دیا ہے نہ تو نوبت دی ہے

سانپ کے کاٹے کی لہریں ہیں شب و روز آتیں
کاکل یار کے سودے نے اذیت دی ہے

آئی اکسیر غنی دل نہیں رکھتی ایسا
خاکساری نہیں دی ہے مجھے دولت دی ہے

شمع کا اپنے فتیلہ نہیں کس رات جلا
عمل حب کی بہت ہم نے بھی دعوت دی ہے

جسم کو زیر زمیں بھی وہی پہونچا دے گا
روح کو جس نے فلک سیر کی طاقت دی ہے

فرقت یار میں رو رو کے بسر کرتا ہوں
زندگانی مجھے کیا دی ہے مصیبت دی ہے

یاد محبوب فراموش نہ ہووے اے دل
حسن نیت نے مجھے عشق سے نعمت دی ہے

گوش پیدا کیے سننے کو ترا ذکر جمال
دیکھنے کو ترے، آنکھوں میں بصارت دی ہے

لطف دل بستگیٔ عاشق شیدا کو نہ پوچھ
دو جہاں سے اس اسیری نے فراغت دی ہے

کمر یار کے مضمون کو باندھو آتشؔ
زلف خوباں سی رسا تم کو طبیعت دی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse