اے شہنشاہ آسماں اورنگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
by مرزا غالب

اے شہنشاہ آسماں اورنگ
اے جہاں دار آفتاب آثار
تھا میں اک بے نواے گوشہ نشیں
تھا میں اک درد مند سینہ فگار
تم نے مجھ کو جو آبرو بخشی
ہوئی میری وہ گرمی بازار
کہ ہوا مجھ سا ذرہ ناچیز
روشناس ثوابت و سیار
گرچہ از روے ننگ بے ہنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار
کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار
شاد ہوں لیکن اپنے جی میں کہ ہوں
بادشہ کا غلام کار گزار
خانہ زاد اور مرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ گزار
بارے نوکر بھی ہو گیا صد شکر
نسبتیں ہو گئیں مشخص چار
نہ کہوں آپ سے تو کس سے کہوں
مدعاے ضروری الاظہار
پیر و مرشد اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوق آرایش سرود ستار
کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر
تانہ دے بادز مہریر آزار
کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں ہے اگرچہ نزار
کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار
رات کو آگ اور دن کو دھوپ
بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار
آگ تاپے کہاں تلک انساں
دھوپ کھاوے کہاں تلک جاں دار
دھوپ کی یابش آگ کی گرمی
وقنا ربنا عذاب النار
میری تنخواہ جو مقرر ہے
اس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار
رسم ہے مردے کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اسی چلن پہ مدار
مجھ کو دیکھو تو ہوں بقید حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار
بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سود کی تکرار
میری تنخواہ میں تہائی کا
ہو گیا ہے شریک ساہوکار
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعر نغز گوے خوش گفتار
رزم کی داستان گر سنیے
ہے زباں میری تیغ جوہر دار
بزم کا التزام گر کیجیے
ہے قلم میری ابر گوہر بار
ظلم ہے گر نہ دو سخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار
آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار
میری تنخواہ کیجیے ماہ بماہ
تا نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار
ختم کرتا ہوں اب دعا پہ کلام
شاعری سے نہیں مجھے سروکار
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse