اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ
by محمد ابراہیم ذوق

اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ
ورنہ جگر کو روئے گا تو دھر کے سر پہ ہاتھ

چھوڑا نہ دل میں صبر نہ آرام نے قرار
تیری نگہ نے صاف کیا گھر کے گھر پہ ہاتھ

کھائے ہے اس مزے سے غم عشق میرا دل
جیسے گرسنہ مارے ہے حلوائے تر پہ ہاتھ

خط دے کے چاہتا تھا زبانی بھی کچھ کہے
رکھا مگر کسی نے دل نامہ بر پہ ہاتھ

جوں پنج شاخہ تو نہ جلا انگلیاں طبیب
رکھ رکھ کے نبض عاشق تفتہ جگر پہ ہاتھ

قاتل یہ کیا ستم ہے کہ اٹھتا نہیں کبھی
آ کر مزار کشتۂ تیغ نظر پہ ہاتھ

میں ناتواں ہوں خاک کا پروانے کی غبار
اٹھتا ہوں رکھ کے دوش نسیم سحر پہ ہاتھ

اے شمع ایک چور ہے بادی یہ باد صبح
مارے ہے کوئی دم میں ترے تاج زر پہ ہاتھ

اے ذوقؔ میں تو بیٹھ گیا دل کو تھام کر
اس ناز سے کھڑے تھے وہ رکھ کر کمر پہ ہاتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse