اے دل ہوا ہے جیسے مرے دل کو تو پسند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے دل ہوا ہے جیسے مرے دل کو تو پسند
by نواب امراوبہادر دلیر

اے دل ہوا ہے جیسے مرے دل کو تو پسند
آیا کوئی حسین نہ ترے روبرو پسند

ٹانکے لگاؤ حلق پہ خنجر کو پھیر کر
پھر یہ کہو ہمیں ہے یہ طوق گلو پسند

ایمان سے خدا کے لئے تو ہی سچ بتا
واعظ کسی کو بھی ہے تری گفتگو پسند

آفت ہے زمزمہ تو غضب گٹکری کی تان
کیوں ہو نہ مجھ کو تجھ سا بت خوش گلو پسند

درد فراق میں دل صد چاک کو مرے
تار نگاہ یار ہے بہر رفو پسند

روز الست سے ہوں میں سرشار واعظو
کیوں ہو نہ مجھ کو بادہ و جام و سبو پسند

درد فراق دوست پہ مرتے ہیں دل جگر
دونوں کو ہے بس ایک یہی آرزو پسند

دیکھوں گا آنکھ اوٹھا کے نہ میں حور کی طرف
مر کر بھی ہاں رہے گی یہی آرزو پسند

جھوٹی ملے شراب جو اس بت کی ساقیا
کیوں ہو نہ زاہدوں کو وہ بہر وضو پسند

ابرو سے گو لڑا کبھی تیر نگاہ سے
دل کو ہے میرے جنگ یہ اے جنگجو پسند

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse