اے دل نہ کر تو فکر پڑے گا بلا کے ہاتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے دل نہ کر تو فکر پڑے گا بلا کے ہاتھ
by شیخ ظہور الدین حاتم

اے دل نہ کر تو فکر پڑے گا بلا کے ہاتھ
آئینہ ہو کے جا کے لگ اب دل ربا کے ہاتھ

پیغام درد دل کا مرے غنچہ لب ستی
پہنچا سکے گا کون مگر دوں صبا کے ہاتھ

میں اب گلہ جہاں میں بیگانوں سیں کیا کروں
جینا ہوا محال مجھے آشنا کے ہاتھ

دینا نہیں ہے شیشۂ دل سنگ دل کے تئیں
دیجے اگر یہ دل تو کسو میرزا کے ہاتھ

آزاد ہو رہا ہوں دو عالم کے قید سوں
میتا لگا ہے جب ستیں مج بے نوا کے ہاتھ

تابع رضا کا اوس کی ازل سیں کیا مجھے
چلتا نہیں ہے زور کسوں کا قضا کے ہاتھ

حاتمؔ امید حق پہ نہ راکھے تو کیا کرے
موقوف ہے ملاپ سجن کا خدا کے ہاتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse