اے دل نہ عقیدہ ہے دوا پر نہ دعا پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے دل نہ عقیدہ ہے دوا پر نہ دعا پر
by صفی اورنگ آبادی

اے دل نہ عقیدہ ہے دوا پر نہ دعا پر
کم بخت تجھے چھوڑ دیا ہم نے خدا پر

اس طرح سنی عشق میں ناصح کی ہر اک بات
پرہیز کیا کرتے ہیں جس طرح دوا پر

اب تک تو کبھی بے مے و معشوق نہ گزری
آئندہ رضامند ہوں مالک کی رضا پر

اتنے تو گناہ گار ہیں بدنام محبت
آنکھیں تو ملی ہیں ترے نقش کف پا پر

دل لینے کے انداز کا کچھ نام نہیں ہے
موقوف ہے یہ چیز ادا پر نہ حیا پر

اللہ مجھے کم سے کم اتنا تو بنا دے
ایک ایک تو دل دوں تری ایک ایک ادا پر

دیکھیں ترے کوچے کی ذرا آب و ہوا بھی
چلتے ہیں جو پانی پہ جو اڑتے ہوا پر

آج آپ کو دیکھا مگر اب تک تو سنا تھا
قائل نہیں ہوتا کبھی انسان خطا پر

معلوم نہیں کون سی مٹی سے بنے ہیں
وہ لوگ جو غش ہیں ترے نقش کف پا پر

ہم اپنے خیالات کی اصلاح کریں گے
کوشش تو بہت کی ہے بھروسہ ہے خدا پر

ہوتا ہوں تری شان کریمی کے تصدق
مرنے کے لئے ہوتے ہیں چیونٹی کو عطا پر

اے دوست فراموش یہ ہے حال ہمارا
آمین کہا کرتے ہیں دشمن کی دعا پر

کیا آہ سے ارمان نکلتے ہیں کسی کے
پل باندھتے ہیں باندھنے والے تو ہوا پر

تکلیف ہمیشہ دل خود سر نے اٹھائی
آئی ہیں بلائیں بہت اس ایک بلا پر

اللہ نے کیا کیا ترے منہ سے نہ سنایا
ہم شکر بھی کرتے ہیں شکایت کی بنا پر

تاکا تھا مجھے اور چھدا غیر کا سینہ
اے واہ نکالے ہیں ترے تیر نے کیا پر

عاشق ہوں تو کیا آپ کی صحبت میں رہا ہوں
ہنسنا ہی پڑے گا مرے رونے کی ادا پر

وہ کون ہیں میں کون ہوں کیا منہ سے نکالوں
منصور کو سولی ملی ایسی ہی خطا پر

ایسے ترے عاشق کبھی دیکھے نہ سنے تھے
پہرے تو بٹھائے نہیں نقش کف پا پر

عشاق سے بھولے کہیں دیکھے بھی ہیں تم نے
مر مٹتے ہیں یہ لوگ فقط نام وفا پر

تم سے تو صفیؔ نے فقط اک ڈھونگ کیا ہے
کھاتا ہے نہ پیتا ہے تو جیتا ہے ہوا پر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse