اے دل افسردہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے دل افسردہ
by عابد علی عابد

اے دل افسردہ پینے کی بہاریں آ گئیں
کالی کالی بدلیاں پھر آسماں پر چھا گئیں

دامن کہسار سے ٹھنڈی ہوا آنے لگی
نبض خس میں زندگی کا خون دوڑانے لگی

موتیے کے پھول گلزاروں میں لہرانے لگے
لالہ و نسریں کے جلوے رنگ پر آنے لگے

ہے کنار آب دریا ماہ پاروں کا ہجوم
جس طرح شاداب راتوں میں ستاروں کا ہجوم

کالے کالے آنچلوں میں ان کے چہرے نور پاش
گہرے گہرے بادلوں میں بجلیوں کا ارتعاش

گل بدن گل پیرہن مہتاب رخ ناز آفریں
دل ربائی کی اداکاری میں اعجاز آفریں

کچھ لگاوٹ کچھ حیا کچھ شوخیاں کچھ اضطراب
اپنے سائے سے گریزاں اپنے سائے سے حجاب

دلبری کے سب طریقے سادگی کے رنگ ہیں
سادگی کے سب طریقے دلبری کے رنگ ہیں

اے دل افسردہ اے کم بخت اے حسرت نصیب
اے فریب حسن کے پامال اے فرقت نصیب

تو ہے اور اس بے وفا کی بے وفائی کے گلے
بے وفائی کے گلے درد جدائی کے گلے

ہر طرف اک عالم کیف و طرب چھایا ہوا
اور تو اے بد نصیب شوق مرجھایا ہوا

کیسے کیسے مہ جبیں ہیں نور پیکر برق تاب
دل نوازی کے لئے بیتاب ہے جن کا شباب

ان حسینوں کے اشارات محبت دل فروز
جن کے جلوے دل ربا ہیں جن کی طلعت دل فروز

دلبری کے کیسے کیسے نکتہ داں موجود ہیں
سجدہ کرنا ہو تو کتنے آستاں موجود ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse