اے دل اس زلف کی رکھیو نہ تمنا باقی
Appearance
اے دل اس زلف کی رکھیو نہ تمنا باقی
حشر تک ورنہ رہے گی شب یلدا باقی
ترے ہنگامہ سے خوش ہوں مگر اے جوش جنوں
کچھ قیامت کے لئے بھی رہے غوغا باقی
آپ کو بیچ چکا ہوں ترے غم کے ہاتھوں
ہے مگر عشق کا تیرے ابھی سودا باقی
غم ہجراں میں گئی جان چلو خوب ہوا
دوستوں کو نہ رہے فکر مداوا باقی
جان سینہ سے نکلنے کو ہے دل پہلو سے
ہے فقط اس نگہ ناز کا ایما باقی
خاک عاشق سے اگاتا ہے مغیلاں کا درخت
اس کی مژگاں کا ہے مرقد میں بھی کھٹکا باقی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |