اے دل اس زلف کی رکھیو نہ تمنا باقی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے دل اس زلف کی رکھیو نہ تمنا باقی
by عاشق اکبرآبادی

اے دل اس زلف کی رکھیو نہ تمنا باقی
حشر تک ورنہ رہے گی شب یلدا باقی

ترے ہنگامہ سے خوش ہوں مگر اے جوش جنوں
کچھ قیامت کے لئے بھی رہے غوغا باقی

آپ کو بیچ چکا ہوں ترے غم کے ہاتھوں
ہے مگر عشق کا تیرے ابھی سودا باقی

غم ہجراں میں گئی جان چلو خوب ہوا
دوستوں کو نہ رہے فکر مداوا باقی

جان سینہ سے نکلنے کو ہے دل پہلو سے
ہے فقط اس نگہ ناز کا ایما باقی

خاک عاشق سے اگاتا ہے مغیلاں کا درخت
اس کی مژگاں کا ہے مرقد میں بھی کھٹکا باقی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse