اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم
by قلق میرٹھی

اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم
کیا حال ہوگا اس کا جس دل میں خار ہیں ہم

ہر چند دل میں تیرے ظالم غبار ہیں ہم
کتنے دبے ہوئے ہیں کیا خاکسار ہیں ہم

کیا جانے کیا دکھائے کم بخت راز دشمن
بے اختیار ہو تم اور بے قرار ہیں ہم

واں شوخیوں نے مارے ناکام کیسے کیسے
یاں سادگی سے کیا کیا امیدوار ہیں ہم

نے رخت میکدے میں نے کعبے کا ارادہ
ہیں دل لگی کے بندے یاروں کے یار ہیں ہم

واں سرگزشت دشمن وہ کہہ رہے ہیں منہ پر
یاں بے خودی ہے اس پر کیا راز دار ہیں ہم

ساقی تری نگاہیں کب تک رہیں گی پلٹی
ہے نشہ زاہدوں کو اور بادہ خوار ہیں ہم

کعبہ ہے سنگ بالیں زہاد خفتہ دل کا
اور مے کدے کے اندر شب زندہ دار ہیں ہم

اللہ رے ظرف دل کا سب کی جگہ ہے اس میں
بے غم رہے ہے دشمن کیا غم گسار ہیں ہم

اے حشر بچ کے چلنا اے چرخ ہٹ کے گرنا
ہے برق سایہ جس کا وہ خار زار ہیں ہم

اتنی خلش مژہ کی اب بڑھ گئی کہ گویا
زخم دل عدو میں خنجر گزار ہیں ہم

کب تک رہے گا دشمن جامے سے اپنے باہر
ہو آگ آگ جس سے تم وہ شرار ہیں ہم

دشمن کی جیب میں تم صبر و شکیب میں ہم
تم دست کوتہی ہو پائے نگار ہیں ہم

وادی جستجو سے گزریں تو کیا عجب ہے
وارفتہ کیسے کیسے لیل و نہار ہیں ہم

کیا بادۂ جوانی مرد آزماں نشہ تھا
اب اے قلقؔ وبال خواب و خمار ہیں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse