اے جذب محبت تو ہی بتا کیوں کر نہ اثر لے دل ہی تو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے جذب محبت تو ہی بتا کیوں کر نہ اثر لے دل ہی تو ہے
by آرزو لکھنوی

اے جذب محبت تو ہی بتا کیوں کر نہ اثر لے دل ہی تو ہے
سیدھی بھی چھری ٹیڑھی بھی چھری دل دوز نظر قاتل ہی تو ہے

جب ہوک اٹھے گی تڑپے گا انصاف نہ چھوڑو دل ہی تو ہے
ناچند تھکن کا صبر و سکوں بسمل آخر بسمل ہی تو ہے

طوفان بلا کی موجوں میں کیں بند آنکھیں اور پھاند پڑے
کشتی نے جہاں ٹکر کھائی دل بول اٹھا ساحل ہی تو ہے

ہے ظرف یہاں کس کا کتنا دل بس ہے اسی کا پیمانہ
رونا بھی برا ہنسنا بھی برا جو بات ہے وہ مشکل ہی تو ہے

ناخوش ہے تو کیا ہے خوش ہے تو کیا جیسا بھی سہی ہے تو اپنا
یہ ساتھ نہیں چھٹنے والا بے کس کا سہارا دل ہی تو ہے

ہیں موت کے اس جینے میں مزے غم جس کو نہ ہو وہ کیا سمجھے
جب ثابت کرتے بن نہ پڑے جو دعویٰ ہے باطل ہی تو ہے

تھی خضر طریق افتاد یہاں اور سنگ حوادث سنگ نشاں
حد راہ طلب کی آ گئی ہاں جاتا ہے کہاں منزل ہی تو ہے

دکھ دے کے الٹے دینا کیا فریاد نتیجہ ہے غم کا
جب ٹھیس لگی شیشہ ٹھنکا پتھر نہ سمجھئے دل ہی تو ہے

آپ آرزوؔ اب خاموش رہیں کچھ اچھی بری کھل کر نہ کہیں
ہیں جتنے منہ اتنی باتیں محفل آخر محفل ہی تو ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse