اے جان شب ہجراں تری سخت بڑی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے جان شب ہجراں تری سخت بڑی ہے
by فائز دہلوی

اے جان شب ہجراں تری سخت بڑی ہے
ہر پل مگر اس نس کی برمہا کی گھڑی ہے

ہر بال میں ہے میرا دل صاف گرفتار
کیا خوب تری زلف میں موتیاں کی لڑی ہے

نیلم کی جھلک دیتی ہے یاقوت میں گویا
سو تیرے لب لعل پہ مسی کی دھڑی ہے

تھے ذکر درازی کے تری ہجر کی شب کے
کیا پہنچی شتاب آ کے تری عمر بڑی ہے

سورج کا جلانے کوں جگر جیوں دل فائزؔ
اے نار تو کیوں دھوپ میں سر کھول کھڑی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse