اے بت جفا سے اپنی لیا کر وفا کا کام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے بت جفا سے اپنی لیا کر وفا کا کام
by شاد عظیم آبادی

اے بت جفا سے اپنی لیا کر وفا کا کام
بندوں کے کام آ کہ یہی ہے خدا کا کام

کس جا تھا قصد شوق نے پہنچا دیا کدھر
کہتے نہ تھے ٹھگوں سے نہ لے رہ نما کا کام

کہتا ہے دل سنا مجھے گیسو کی داستاں
آج اس نے سر پہ ڈال دیا ہے بلا کا کام

تاثیر کو نہ آہ سے پوچھوں تو کیا کروں
کیوں خود اٹھا لیا دل بے مدعا کا کام

اپنی سی تو تو کر انہیں پھر اختیار ہے
سننا ہے ان کا کام پہنچنا دعا کا کام

سینے میں داغ کھلتے ہی جاتے ہیں ہر نفس
اب اپنی سانس کرتی ہے باد صبا کا کام

موسیٰ فقط نہ تھے ترے آئینہ داروں میں
عیسیٰ بھی کرتے تھے لب معجزنما کا کام

ہر رات اپنی آنکھوں کو رونا ہے فرض عین
طاعت گزار کرتے ہیں جیسے خدا کا کام

تھا بھی ذلیل حسن کی سرکار میں یہ دل
کم بخت کو سپرد ہوا التجا کا کام

اے شادؔ میری سخت زبانی پہ ہے خموش
ناصح بھی اب تو کرنے لگا انبیا کا کام

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse