اے آہ تری قدر اثر نے تو نہ جانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے آہ تری قدر اثر نے تو نہ جانی
by مرزا محمد رفیع سودا

اے آہ تری قدر اثر نے تو نہ جانی
گو تج کو لقب ہم نے دیا عرش مکانی

یک خلق کی نظروں میں سبک ہو گیا لیکن
کرتا ہوں میں اب تک تری خاطر پہ گرانی

ٹک دیدۂ تحقیق سے تو دیکھ زلیخا
ہر چاہ میں آتا ہے نظر یوسف ثانی

معمور ہے جس روز سے ویرانۂ دنیا
ہر جنس کے انساں کی یہ ماٹی گئی چھانی

اک وامق نو کا ہے سمجھ چاک گریباں
کرتی ہے جو رخنہ کوئی دیوار پرانی

بلبل ہی سسکتی نہ تھی کچھ باغ میں تجھ بن
شبنم گلوں کے منہ میں چواتی رہی پانی

ہے گوش زدہ خلق مرا قصۂ جانکاہ
جب سے کہ نہ سمجھے تھا تو چڑیا کی کہانی

جوں شمع مجھے شرم ہے زنار کی اے شیخ
مالا نہ جپوں رات کو بے اشک فشانی

جس سمت نظر موج سراب آوے تو یہ جان
ہووے گی کسی زلف چلیپا کی نشانی

کیا کیا ملے لیلیٰ منشاں خاک میں سوداؔ
گو اپنے بھی محبوب کی دیکھی نہ جوانی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse