اے آرزوئے قتل ذرا دل کو تھامنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے آرزوئے قتل ذرا دل کو تھامنا
by مومن خان مومن

اے آرزوئے قتل ذرا دل کو تھامنا
مشکل پڑا مرا مرے قاتل کو تھامنا

تاثیر بیقراری ناکام آفریں
ہے کام ان سے شوخ شمائل کو تھامنا

دیکھے ہے چاندنی وہ زمیں پر نہ گر پڑے
اے چرخ اپنے تو مہ کامل کو تھامنا

مضطر ہوں کس کا طرز سخن سے سمجھ گیا
اب ذکر کیا ہے سامع عاقل کو تھامنا

ہو صرصر فغاں سے نہ کیونکر وہ مضطرب
مشکل ہوا ہے پردۂ محمل کو تھامنا

سیکھے ہیں مجھ سے نالۂ نے آسماں شکن
صیاد اب قفس میں عنادل کو تھامنا

یہ زلف خم بہ خم نہ ہو کیا تاب غیر ہے
تیرے جنوں زدے کی سلاسل کو تھامنا

اے ہمدم آہ تلخی ہجراں سے دم نہیں
گرتا ہے دیکھ جام ہلاہل کو تھامنا

سیماب وار مر گئے ضبط قلق سے ہم
کیا قہر ہے طبیعت مائل کو تھامنا

آغوش گور ہو گئی آخر لہولہان
آساں نہیں ہے آپ کے بسمل کو تھامنا

سینہ پہ ہاتھ دھرتے ہی کچھ دم پہ بن گئی
لو جان کا عذاب ہوا دل کو تھامنا

باقی ہے شوق چاک گریباں ابھی مجھے
بس اے رفوگر اپنی انامل کو تھامنا

مت مانگیو امان بتوں سے کہ ہے حرام
مومنؔ زبان بیہودہ سائل کو تھامنا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.