ایک ہی خط میں ہے کیا حال جو مذکور نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک ہی خط میں ہے کیا حال جو مذکور نہیں
by عزیز لکھنوی

ایک ہی خط میں ہے کیا حال جو مذکور نہیں
دل تو دل عشق میں سادہ ورق طور نہیں

ایک ہم ہیں کہ کسی بات کا مقدور نہیں
ایک وہ ہیں کہ کسی رنگ میں مجبور نہیں

امتحاں گاہ محبت نہیں گل زار خلیل
کون ایسا ہے جو زخموں سے یہاں چور نہیں

نزع کا وقت ہے بیٹھا ہے سرہانے کوئی
وقت اب وہ ہے کہ مرنا ہمیں منظور نہیں

قابل غور ہے اے جلوہ پرستان ازل
یہ کہانی ہے مری واقعۂ طور نہیں

مصر کا چاند ہو آغوش میں زنداں کے طلوع
فطرت حسن بدل جائے تو کچھ دور نہیں

سر جھکائے در دولت سے پلٹنے والے
بے نیازی کی ادائیں ہیں وہ مغرور نہیں

جبہ سائی بھی گوارا نہیں کرتا کوئی
اٹھ کے جانا در دولت سے بھی دستور نہیں

عشق میں سرحد منزل سے کچھ آگے ہوں گے
اس کا رونا ہے کوئی سعی بھی مشکور نہیں

دل میں پیوست ہوئی تھی جو مرے روز ازل
ہے وہی شوخ نظر صاعقۂ طور نہیں

دل کو بھی دی گئی ہے خدمت درد ابدی
صرف آنکھیں ہی مری رونے پہ معمور نہیں

سر مژگاں مرے آنسو کا ستارہ چمکا
دار پر اب اثر جذبۂ منصور نہیں

صاد سرخی سے کیا کس نے سر فرد جمال
اپنے عالم میں ترے دیدۂ مخمور نہیں

زندگی ختم ہوئی جب تو اک آواز سنی
آ گیا میں ترے نزدیک بس اب دور نہیں

روح کہتی ہوئی نکلی ہے دم نزع عزیزؔ
ان سے اس بزم میں ملنا ہمیں منظور نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse