ایک پودا اور گھاس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک پودا اور گھاس
by اسماعیل میرٹھی

اتفاقا ایک پودا اور گھاس
باغ میں دونوں کھڑے ہیں پاس پاس
گھاس کہتی ہے کہ اے میرے رفیق
کیا انوکھا اس جہاں کا ہے طریق
ہے ہماری اور تمہاری ایک ذات
ایک قدرت سے ہے دونوں کی حیات
مٹی اور پانی ہوا اور روشنی
واسطے دونوں کے یکساں ہے بنی
تجھ پہ لیکن ہے عنایت کی نظر
پھینک دیتے ہیں مجھے جڑ کھود کر
سر اٹھانے کی مجھے فرصت نہیں
اور ہوا کھانے کی بھی رخصت نہیں
کون دیتا ہے مجھے یاں پھیلنے
کھا لیا گھوڑے گدھے یا بیل نے
تجھ پہ منہ ڈالے جو کوئی جانور
اس کی لی جاتی ہے ڈنڈے سے خبر
اولے پالے سے بچاتے ہیں تجھے
کیا ہی عزت سے بڑھاتے ہیں تجھے
چاہتے ہیں سب تجھ کو سب کرتے ہیں پیار
کچھ پتا اس کا بتا اے دوست دار
اس سے پودے نے کہا یوں سر ہلا
گھاس سب سچا ہے تیرا یہ گلا
مجھ میں اور تجھ میں نہیں کچھ بھی تمیز
صرف سایہ اور میوہ ہے عزیز
فائدہ اک روز مجھ سے پائیں گے
سایہ میں بیٹھیں گے اور پھل کھائیں گے
ہے یہاں عزت کا سہرا اس کے سر
جس سے پہونچے نفع سب کو بیشتر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse