ایک مقتول جفا دو ظلم کے قابل نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک مقتول جفا دو ظلم کے قابل نہ تھا
by ثاقب لکھنوی

ایک مقتول جفا دو ظلم کے قابل نہ تھا
ورنہ دل کا مارنا آسان تھا مشکل نہ تھا

شوق آزادی میں تڑپوں اس پہ راضی دل نہ تھا
ورنہ بیتابی سلامت چھوٹنا مشکل نہ تھا

حشر میں وہ سر جھکائے ہیں میں شکوہ کیا کروں
جانے والی جان تھی میرا کوئی قاتل نہ تھا

اب سلیمانی کسے کہتے ہیں بتلا دے مجھے
ایک عالم تھا تری مٹھی میں میرا دل نہ تھا

دے صدا اب دل مگر نقش قدم کو دیکھ کر
ایسے بھی در ہیں کبھی جن پر کوئی سائل نہ تھا

خاص وقت یاد گلشن اور میرا چھیڑنا
شب کو بھی صیاد میرے ذبح سے غافل نہ تھا

صبح و شام غم نے دامن بھر کے بھیجا دہر سے
ورنہ اس عمر دو روزہ کا کوئی حاصل نہ تھا

اس کی قدرت نا توانوں کو بھی دیتا ہے عروج
آسماں سے سر چڑھے نالہ تو اس قابل نہ تھا

تیرے نقشے نے بھی فرقت میں نہ بہلایا مجھے
شام غم جب آئی گردوں پر ہر کامل نہ تھا

دیکھ لیتے دو قدم چل کر کہ مطلب تھا یہی
در پہ جو آیا تھا وہ بیمار تھا سائل نہ تھا

قلب سوزاں اور ہی دھوکا نہ کھانا دہر میں
رہ گیا جو آگ دے کر سنگ تھا وہ دل نہ تھا

کچھ سنبھل جاتا اگر کروٹ بدل جاتے مری
یہ مجھے دشوار تھا ان کے لئے مشکل نہ تھا

ڈوبتا تھا دل شب وصل آ چکی تھی تا سحر
ایک تنکے کا سہارا بھی لب ساحل نہ تھا

اس دل گم گشتہ مطلب کے سبب سے دہر میں
کون سا دن تھا کہ میں آوارۂ منزل نہ تھا

ایک جلتی شمع اٹھوا دی بہت اچھا کیا
سوختہ دل تھا میں کوئی رونق محفل نہ تھا

شام غم جس میں رہے برسوں وہاں کیا عید ہو
وہ تو آ جائے مگر یہ دل ہی اس قابل نہ تھا

جز فریب حسن اور الفت کو ثاقبؔ کیا کہوں
زندگی سے شے کبھی اس پر بھی دل مائل نہ تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse