ایک لڑکی کا گیت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک لڑکی کا گیت
by اختر شیرانی

جہاں چڑیاں گھنیری جھاڑیوں میں چہچہاتی ہوں
جہاں شاخوں پہ کلیاں نت نئی خوشبو لٹاتی ہوں
اور ان پر کوئلیں کو کو کے میٹھے گیت گاتی ہوں
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں برسات کے موسم میں سبزہ لہلہاتا ہو
ہوا کی چھیڑ سے ایک ایک پتا تھرتھراتا ہو
جہاں چشموں کا پانی نرم لے میں گنگناتا ہو
وہاں میں ہوں میری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں اونچے پہاڑوں پر گھٹائیں گھر کے آتی ہوں
ہوا کی گود میں نیلم کی پریاں مسکراتی ہوں
اور اپنے نیلگوں ہونٹوں سے موتی میں لٹاتی ہوں
وہاں میں ہوں میری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں نہروں میں بہتا پانی موتی سا چھلکتا ہو
جہاں چاروں طرف گلزار میں سبزہ لہکتا ہو
جہاں پھولوں کی خوشبوؤں سے بن کا بن مہکتا ہو
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں پھولوں کی خوشبوؤں سے بن کا بن مہکتا ہو
جہاں باغوں میں اور کھیتوں میں ہر یا دل لہکتا ہو
جہاں ٹیسو کے اک اک پھول میں شعلہ دہکتا ہو
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں آموں کے ہوں باغ اور کوئی رکھوالا نہ ہو ہرگز
کوئی کتا بھی مالی نے جہاں پالا نہ ہو ہرگز
اور اماں جی سا کوئی دیکھنے والا نہ ہو ہرگز
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
الٰہی میرے دل کی آرزو جلدی سے پوری ہو
وہاں لے چل جہاں اس فصل میں جانا ضروری ہو
مری ہو شملہ ہو سولن ہو دلہوزی مسوری ہو
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse