ایک غمگین یاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک غمگین یاد
by مجاز لکھنوی

مرے پہلو بہ پہلو جب وہ چلتی تھی گلستاں میں
فراز آسماں پر کہکشاں حسرت سے تکتی تھی
محبت جب چمک اٹھتی تھی اس کی چشم خنداں میں
خمستان فلک سے نور کی صہبا چھلکتی تھی

مرے بازو پہ جب وہ زلف شب گوں کھول دیتی تھی
زمانہ نکہت خلد بریں میں ڈوب جاتا تھا
مرے شانے پہ جب سر رکھ کے ٹھنڈی سانس لیتی تھی
مری دنیا میں سوز و ساز کا طوفان آتا تھا

وہ میرا شعر جب میری ہی لے میں گنگناتی تھی
مناظر جھومتے تھے بام و در کو وجد آتا تھا
مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب مسکراتی تھی
مرے ظلمت کدے کا ذرہ ذرہ جگمگاتا تھا

امنڈ آتے تھے جب اشک محبت اس کی پلکوں تک
ٹپکتی تھی در و دیوار سے شوخی تبسم کی
جب اس کے ہونٹ آ جاتے تھے از خود میرے ہونٹوں تک
جھپک جاتی تھیں آنکھیں آسماں پر ماہ و انجم کی

وہ جب ہنگام رخصت دیکھتی تھی مجھ کو مڑ مڑ کر
تو خود فطرت کے دل میں محشر جذبات ہوتا تھا
وہ محو خواب جب ہوتی تھی اپنے نرم بستر پر
تو اس کے سر پہ مریم کا مقدس ہاتھ ہوتا تھا

خبر کیا تھی کہ وہ اک روز مجھ کو بھول جائے گی
اور اس کی یاد مجھ کو خون کے آنسو رلائے گی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse