ایک عالم نے جبہ سائی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک عالم نے جبہ سائی کی
by خواجہ محمد وزیر

ایک عالم نے جبہ سائی کی
اے بتو تم نے بھی خدائی کی

عاشقوں کے لہو کی پیاسی ہیں
مچھلیاں اس کف حنائی کی

زلف پر پیچ سے جو دل الجھا
بیچ میں رخ پڑا صفائی کی

مرغ بے بال و پر ہوں اے صیاد
آرزو ہے کسی رہائی کی

اے جنوں دشت کو چلیں گے ہم
ہے قسم اس برہنہ پائی کی

سر جدا ہم نے اپنا کر ڈالا
آئی جب گفتگو جدائی کی

پھر گیا یار گھر کے پاس آ کر
بخت برگشتہ نے برائی کی

سیکڑوں جامے تجھ پہ پھٹتے ہیں
دھوم ہے تیری میرزائی کی

تجھ سے تو ہم کو اے خم ابرو
تھی نہ امید کج ادائی کی

کوئی قاتل کی راہ بھولا تھا
اے اجل تو نے رہنمائی کی

دل کہیں اور ہم نے اٹکایا
بے وفاؤں سے بے وفائی کی

نہ گئی زاہدوں کے پاس کبھی
دختر رز نے پارسائی کی

شہر میں جائے گی مری پاپوش
قدر واں کیا برہنہ پائی کی

صاف ہے آئنہ تن پر نور
ہے دلیل اس پہ خود نمائی کی

کاسۂ ماہ کیوں نہ ہو پر نور
برسوں اس کوچے کی گدائی کی

کعبۂ دل میں بھی مقام کیا
اے بتو تم نے کیا رسائی کی

خط کے آنے پہ بھی مکدر ہے
صورت اب کون سی صفائی کی

بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب تو صورت نہیں رہائی کی

کس کے کوچے کی راہ بھولا ہوں
خضر نے بھی نہ رہنمائی کی

شاہ کہلائے ہر طرح سے وزیرؔ
بادشاہی نہ کی گدائی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse