Jump to content

ایک شاعرہ کی شادی پر

From Wikisource
ایک شاعرہ کی شادی پر
by اختر شیرانی
299356ایک شاعرہ کی شادی پراختر شیرانی

جس کو دعویٰ تھا کہ وہ ’’دنیا میں صرف شاعرانہ زندگی گزارنے آئی ہے ‘‘

اے کہ تھا انس تجھے عشق کے افسانوں سے
زندگانی تری آباد تھی رومانوں سے

شعر کی گود میں پلتی تھی جوانی تیری
تیرے شعروں سے ابلتی تھی جوانی تیری

رشک فردوس تھا ہر حسن بھرا خواب ترا
ایک پامال کھلونا تھا یہ مہتاب ترا

نکہت شعر سے مہکی ہوئی رہتی تھی سدا
نشۂ فکر میں بہکی ہوئی رہتی تھی سدا

شرکت غیر سے بیگانہ تھے نغمے تیرے
عصمت حور کا افسانہ تھے نغمے تیرے

شعر کی خلوت رنگیں تھی پری خانہ ترا
مست خوابوں کے جزیروں میں تھا کاشانہ ترا

غائب از چشم تھی جنت کی بہاروں کی طرح
دست انساں سے تھی محفوظ ستاروں کی طرح

صحبت غیر سے گھبراتی تھی تنہائی تری
آئینے سے بھی تو شرماتی تھی تنہائی تری

صبح کی طرح سے دوشیزہ تھی ہستی تیری
بوئے گل کی طرح پاکیزہ تھی ہستی تیری

نغمہ و شعر کے فردوس میں تو رہتی تھی
یکسر الہام و ترنم تھا جو تو کہتی تھی

تیرے اشعار تھے جنت کی بہاروں کے ہجوم
تیرے افکار تھے زرین ستاروں کے ہجوم

درد شعری کے تأثر سے تو مغموم تھی تو
آسماں کا مگر اک غنچۂ معصوم تھی تو

موج کوثر کا چھلکتا ہوا پیمانہ تھی
غیر ہونٹوں کے تصور سے بھی بیگانہ تھی

اب گوارا ہوئی کیوں غیر کی صحبت تجھ کو
کیوں پسند آ گئی نا جنس کی شرکت تجھ کو

اوج تقدیس کو پستی کی ادا بھا گئی کیوں
تیری تنہائی کی جنت پہ خزاں چھا گئی کیوں

شعر و رومان کے وہ خواب کہاں ہیں تیرے
وہ نقوش گل و مہتاب کہاں ہیں تیرے

کون سی طرفہ ادا بھا گئی اس دنیا میں
خلد کو چھوڑ کے کیوں آ گئی اس دنیا میں

ہو گئی عام تو نور مہ تاباں کی طرح
آہ کیوں جل نہ بجھی شمع شبستاں کی طرح

اپنی دوشیزہ بہاروں کو نہ کھونا تھا کبھی
وہ کلی تھی تو جسے پھول نہ ہونا تھا کبھی

عفتیں مٹ کے جوانی کو مٹا جاتی ہیں
پھول کمھلاتے ہیں کلیاں کہیں کمھلاتی ہیں

بلبل مست نوا دشت میں کیوں رہنے لگی
نغمۂ تر کی جگہ مرثیہ کیوں کہنے لگی

ہوس آلودہ ہوئی پاک جوانی تیری
غیر کی رات ہے اب اور کہانی تیری

کس کو معلوم تھا تو اس قدر ارزاں ہوگی
زینت محفل و پامال شبستاں ہوگی

جذب عفت کا میسر تھا جو عرفاں تجھ کو
کیوں نہ مرغوب ہوا شیوۂ جاناں تجھ کو

تیرگی حرص کی حوروں کو بھی بہکا ہی گئی
تیرے بستر پہ بھی آخر کو شکن آ ہی گئی

اب نہیں تجھ میں وہ حوروں کی سی عفت باقی
حور تھی تجھ میں، گئی، رہ گئی عورت باقی

ہاں وہ عورت جسے بچوں کا فسانہ کہئے
بربط نفس کا اک فحش ترانہ کہئے

جس میں ہے زہر عفونت کا وہ پیمانہ کہیں
اک گناہوں کا بھبھکتا ہوا مے خانہ کہیں

نوحہ خواں اپنی جواں موت کا ہونے دے مجھے
مسکرا تو مگر اس حال پہ رونے دے مجھے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.