ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ
by میر مہدی مجروح

ایک سے ربط ایک سے ہے بگاڑ
روز ہے واں یہی اکھاڑ پچھاڑ

اب وہ دل میں کبھی نہیں آتے
مدتوں سے یہ گھر پڑا ہے اجاڑ

کیوں ہے بے کار موسم گل میں
جیب کر چاک اور گریباں پھاڑ

کار عاشق جو ہو نگہ میں درست
کہیے کیا آپ کا ہے اس میں بگاڑ

کہتے ہو غیر جائے تو آؤں
خوب رکھی ہے آپ نے یہ آڑ

سنگ دل رکھ رکھاؤ دل کا رکھ
کہیں اس شیشے میں نہ آئے دراڑ

غیر جائے تو کام کیوں نہ بنے
دور چھاتی سے ہو کہیں یہ پھاڑ

قد کو ان کے کہا تھا سرو تو وہ
پیچھے لپٹے ہیں میرے ہو کر جھاڑ

عشق سے رہ الگ جہاں تک ہو
کہیں سر پر نہ آ پڑے یہ پھاڑ

قتل تو کر چکے نہ ہو بدنام
میرے لاشے کو دو زمین میں گاڑ

اس کا چھایا ہوا ہے ابر ستم
کیوں نہ تیروں کی مجھ پہ ہو بوچھاڑ

کوئی مہمان تازہ وارد ہے
بند رہتے ہیں رات دن جو کواڑ

وہ تفنگ مژہ ہیں صف آرا
تم پہ مجروحؔ چل نہ جائے باڑ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse