ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
by شاد عظیم آبادی

ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ترچھی نگاہیں تنگ قبائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

ہجر میں اپنا اور ہے عالم ابر بہاراں دیدۂ پر نم
ضد کہ ہمیں وہ آپ بلائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

اپنی ادا سے آپ جھجکنا اپنی ہوا سے آپ کھٹکنا
چال میں لغزش منہ پہ حیائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

ہاتھ میں آڑی تیغ پکڑنا تاکہ لگے بھی زخم تو اوچھا
قصد کہ پھر جی بھر کے ستائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

کالی گھٹائیں باغ میں جھولے دھانی دوپٹے لٹ جھٹکائے
مجھ پہ یہ قدغن آپ نہ آئیں اف ری جوانی ہائے زمانے

پچھلے پہر اٹھ اٹھ کے نمازیں ناک رگڑنی سجدوں پہ سجدے
جو نہیں جائز اس کی دعائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

شادؔ نہ وہ دیدار پرستی اور نہ وہ بے نشہ کی مستی
تجھ کو کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں اف ری جوانی ہائے زمانے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse