ایک دوست کی خوش مذاقی پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک دوست کی خوش مذاقی پر
by مجاز لکھنوی

ہو نہیں سکتا تری اس خوش مذاقی کا جواب
شام کا دل کش سماں اور تیرے ہاتھوں میں کتاب
رکھ بھی دے اب اس کتاب خشک کو بالائے طاق
اڑ رہا ہے رنگ و بو کی بزم میں تیرا مذاق
چھپ رہا ہے پردۂ مغرب میں مہر زر فشاں
دید کے قابل ہیں بادل میں شفق کی سرخیاں
موجزن جوئے شفق ہے اس طرح زیر سحاب
جس طرح رنگین شیشوں میں جھلکتی ہے شراب
اک نگارش آتشیں ہر شے پہ ہے چھایا ہوا
جیسے عارض پر عروس نو کے ہو رنگ حیا
شانۂ گیتی پہ لہرانے کو ہیں گیسوئے شب
آسماں میں منعقد ہونے کو ہے بزم طرب
اڑ رہے ہیں جستجو میں آشیانوں کے طیور
آ چلا ہے آئنے میں چاند کے ہلکا سا نور
دیکھ کر یہ شام کے نظارہ ہائے دل نشیں
کیا ترے دل میں ذرا بھی گدگدی ہوتی نہیں
کیا تری نظروں میں یہ رنگینیاں بھاتی نہیں
کیا ہوائے سرد تیرے دل کو تڑپاتی نہیں
کیا نہیں ہوتی تجھے محسوس مجھ کو سچ بتا
تیز جھونکوں میں ہوا کے گنگنانے کی صدا
سبزہ و گل دیکھ کر تجھ کو خوشی ہوتی نہیں
اف ترے احساس میں اتنی بھی رنگینی نہیں
حسن فطرت کی لطافت کا جو تو قائل نہیں
میں یہ کہتا ہوں تجھے جینے کا حق حاصل نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse