ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو
by میر محمدی بیدار

ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو
پھر مری جان جو کچھ چاہو سو بیداد کرو

گر کسی غیر کو فرماؤ گے تب جانو گے
وے ہمیں ہیں کہ بجا لاویں جو ارشاد کرو

اب تو ویراں کئے جاتے ہو طرب خانۂ دل
آہ کیا جانے کب آ پھر اسے آباد کرو

یاد میں اس قد و رخسار کے اے غم زدگاں
جا کے ٹک باغ میں سیر گل و شمشاد کرو

لے کے دل چاہو کہ پھر دیوے وہ دلبر معلوم
کیسے ہی نالہ کرو کیسی ہی فریاد کرو

سرمۂ دیدۂ عشاق ہے یہ اے خوباں
اپنے کوچہ سے مری خاک نہ برباد کرو

دیکھ کر طائر دل آپ کو بھولا پرواز
خواہ پابند کرو خواہ اسے آزاد کرو

آپ کی چاہ سے چاہیں ہیں مجھے سب ورنہ
کون پھر یاد کرے تم نہ اگر یاد کرو

شمع افروختہ جب بزم میں دیکھو یارو
حال بیدارؔ جگر سوختہ واں یاد کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse