ایک دن مدتوں میں آئے ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک دن مدتوں میں آئے ہو
by میر محمدی بیدار

ایک دن مدتوں میں آئے ہو
آہ تس پر بھی منہ چھپائے ہو

آپ کو آپ میں نہیں پاتا
جی میں یاں تک مرے سمائے ہو

کیا کہوں تم کو اے دل و دیدہ
جو جو کچھ سر پہ میرے لائے ہو

دید بس کر لیا اس عالم کا
پھر چلو واں جہاں سے آئے ہو

کیونکہ تشبیہ اس سے دے بیدارؔ
مہ سے تم حسن میں سوائے ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse