ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی
by جلیل مانکپوری

ایک دن بھی تو نہ اپنی رات نورانی ہوئی
ہم کو کیا اے مہ جبیں گر چاند پیشانی ہوئی

سرد مہری کا تری ساقی نتیجہ یہ ہوا
آگ کے مولوں جو بکتی تھی وہ مے پانی ہوئی

اللہ اللہ پھوٹ نکلا رنگ چاہت کا مری
زہر کھایا میں نے پوشاک آپ کی دھانی ہوئی

ہم کو ہو سکتا نہیں دھوکا ہجوم حشر میں
تیری صورت ہے ازل سے جانی پہچانی ہوئی

لے اڑی گھونگٹ کے اندر سے نگاہ مست ہوش
آج ساقی نے پلائی مے ہمیں چھانی ہوئی

جان کر دشمن جو لپٹے جان میں جاں آ گئی
بارک اللہ کس مزے کی تم سے نادانی ہوئی

رفتہ رفتہ دیدۂ تر کو ڈبویا اشک نے
پانی رستے رستے کشتی میری طوفانی ہوئی

کر گئی دیوانگی ہم کو بری ہر جرم سے
چاک دامانی سے اپنی پاک دامانی ہوئی

خون کی چادر مبارک با حیا تلوار کو
میان سے باہر نکل کر بھی نہ عریانی ہوئی

رات کو چھپ کر نکل جاتی ہے آنکھوں سے جلیلؔ
سیر دیکھو نیند بھی کمبخت سیلانی ہوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse