ایک دم خشک مرا دیدۂ تر ہے کہ نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک دم خشک مرا دیدۂ تر ہے کہ نہیں
by حسرتؔ عظیم آبادی

ایک دم خشک مرا دیدۂ تر ہے کہ نہیں
ماجرے سے مرے تجھ کو بھی خبر ہے کہ نہیں

یوں تو اٹھتے ہے مرے دل سے ہزاروں نالہ
لیکن ان خانہ خرابوں میں اثر ہے کہ نہیں

حال میرا تجھے بے درد نہیں گر باور
دیکھ لے آ کے کہ اب نوع دگر ہے کہ نہیں

میرے گھر کیونکہ تو آوے کہ گلی کوچوں میں
تیرے مشتاق کہاں اور کدھر ہے کہ نہیں

تجھ میں بو پائی نہ مطلق کہیں جنسیت کی
نسل آدم سے تو اے شوخ پسر ہے کہ نہیں

بوالہوس دل کو کر اپنے ذرا بس میں حسرتؔ
مرد بے صبر تجھے کچھ بھی جگر ہے کہ نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse