ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
by مرزا غالب

ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
ظاہراً کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے

جی جلے ذوق فنا کی ناتمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے

آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی درماندگی میں نالہ سے ناچار ہے

ہے وہی بد مستی ہر ذرہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے

آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرت دیدار ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.