ایک تضاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک تضاد
by میراجی

کوہ سے زریں اذیت کے گزر جانے کے بعد
سرخ نغمہ شام کا اک پل میں مر جانے کے بعد
ہاں پس از فریاد و قلب دہر کی لرزش کے بعد
دن کی تم آلود زرد و لالہ گوں کاوش کے بعد
تیرگی کے داغ دل سے کس طرح دھوؤں گا میں
جاگتے ہی جاگتے پھر صبح تک روؤں گا میں

ہاں وہی میں دن کو جس کی آنکھ تھی اور آفتاب
ہاں وہی میں جس نے دیکھا دہر لبریز حیات
ذہن انسانی مرا کہتا ہے کھا کر پیچ و تاب
دیکھ لے حسن مناظر کو نہیں حاصل ثبات
قلب میخانے کی ہا و ہو کا عادی ہے مرا
کچھ تعلق ہی نہیں مجھ کو سکون سنگ سے
مجھ کو خوش آتی نہیں ہے امن کی شب گوں فضا
روح کو تسکیں ملے گی ایک پیہم جنگ سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse