ایفائے وعدہ آپ سے اے یار ہو چکا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایفائے وعدہ آپ سے اے یار ہو چکا
by امداد علی بحر

ایفائے وعدہ آپ سے اے یار ہو چکا
اس کا تو امتحان کئی بار ہو چکا

احباب ہاتھ اٹھائیں ہمارے علاج سے
صحت پذیر عشق کا بیمار ہو چکا

وہ بے حساب بخش دے یہ بات اور ہے
اپنے حساب میں تو گنہ گار ہو چکا

میں ہاتھ جوڑتا ہوں بڑی دیر سے حضور
لگ جائیے گلے سے اب انکار ہو چکا

بیچوں کہاں میں اپنے دل داغدار کو
سودا برا پسند خریدار ہو چکا

پیری میں پرورش ہے عبث جسم زار کی
پھینکوں کسی گھڑی میں یہ بیکار ہو چکا

برہم وہ شوخ کیوں نہ ہو کیوں زلف کو چھوا
یہ ہاتھ ہتھکڑی کے سزاوار ہو چکا

اب مجھ سے التیام کی باتیں نہ کیجیے
دل تم سے پھٹ گیا جگر افگار ہو چکا

مجھ دل فگار کو نہ رہی تم سے کچھ امید
یہ خط سبز مرہم زنگار ہو چکا

دربان کو سلام کریں گھر کی راہ لیں
وہ منہ چھپا کے بیٹھے ہیں دیدار ہو چکا

بندے کے حال پر نظر پرورش رہے
حسن ملیح کا میں نمک خوار ہو چکا

لوں بوسہ خوں بہا میں اس ابرو کمان سے
اب تو جگر سے تیر نگہ پار ہو چکا

اے بحرؔ اب تو بات بھی کرتا نہیں وہ شوخ
وہ رسم و راہ ہو چکی وہ پیار ہو چکا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse