ایسے پر نور و ضیا یار کے رخسارے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسے پر نور و ضیا یار کے رخسارے ہیں
by امداد علی بحر

ایسے پر نور و ضیا یار کے رخسارے ہیں
جن کے آگے مہ و خورشید بھی دو تارے ہیں

کوئی ان آنکھوں سے اس سبزۂ خط کو پوچھے
یہ وہ کانٹے ہیں کہ پلکوں سے سوا پیارے ہیں

کوئی سبقت نہ کبھی خال سے جتنے ہو بچو
سانپ گیسوئے سیہ فام سے من ہارے ہیں

کیوں کر انگیا میں نہ ہو صورت جوزا پیدا
گورے گورے ترے پستاں ہیں کہ مہ پارے ہیں

فصل گل آئے کلی کوئی نہ کوئی چٹکے
آج مرغان سحر باغ میں چہکارے ہیں

عشق اطفال چمن میں ہیں عنادل بیتاب
آشیانوں کا یہ عالم ہے کہ گہوارے ہیں

قتل کرتا ہے مجھے کیوں شب فرقت خاموش
اے موذن مد تکبیر نہیں آرے ہیں

ایک دن پرچہ لگائیں گے نکیرین ضرور
یہ فرشتے نہیں اخبار کے ہرکارے ہیں

خال مشکیں نے دل ایسا ہی جلایا ہے کہ بس
کوئلوں پر بھی یہ دھوکا ہے کہ انگارے ہیں

خوان نعمت سے کبھی خط نہ اٹھائیں گے بخیل
مال کھا سکتی ہیں تقدیر نے منہ مارے ہیں

نہ سزاوار حضر ہوں نہ مبارک ہے سفر
میرے پلے پہ نہ ثابت ہیں نہ سیارے ہیں

رنگ گلزار کا شبنم سا اڑا جاتا ہے
روبرو تیرے ہزاری نہیں فوارے ہیں

واہ کیا یار کے ہونٹوں کی میں تعریف کروں
جان شیریں نہیں جن سے وہ شکر پارے ہیں

خانۂ عشق کے مہماں ہیں ہم اور تدور
داغ ہیں ہم کو نصیب اور اسے انگارے ہیں

بحرؔ ایام جدائی میں نہ کپڑے پھاڑو
یہ سمجھ لو کہ شب وصل کے کفارے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.