ایسے حسیں کے عشق میں ہے بے قرار دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسے حسیں کے عشق میں ہے بے قرار دل
by نواب امراوبہادر دلیر

ایسے حسیں کے عشق میں ہے بے قرار دل
صدقے ہیں جس کی ایک ادا پر ہزار دل

جب مانگتے ہیں سب صنم روزگار دل
اتنے کہاں سے لاؤں میں پروردگار دل

بیزار زندگی سے ہے لیل و نہار دل
جس روز سے حضور کو کرتا ہے پیار دل

کیا سوچتے ہو اس کو نشانہ بتاؤ تم
ہے ناوک مژہ کا تمہارے شکار دل

بوچھار ہو رہی ہے جو تیر نگاہ کی
سینہ ہے چاک چاک ہمارا فگار دل

غمزہ کو دوں کرشمۂ ناز و ادا کو دوں
کس طرح ایک دل کے بنیں تین چار دل

کیا کیا اٹھائیں ہجر صنم میں مصیبتیں
برسوں رہا ہے آٹھ پہر بے قرار دل

دفن اس میں کشتہ ہو کے ہوئیں کتنی حسرتیں
مدفن بنا ہے سینہ تو لوح مزار دل

زاہد خیال یار تو ہر دم ہے جاگزیں
کیونکر کروں میں حور جناں پر نثار دل

کرنے لگا ہے مجھ سے بہت کج ادائیاں
اب بت ہوا ہے جیسے ترا رازدار دل

ٹھہرا نہ ایک دم کبھی سوز فراق میں
سیماب وار اپنا رہا بے قرار دل

دیکھا کوئی حسین تو کیا کیا پھڑک اٹھا
بے چین ہو گیا مرا بے اختیار دل

بھولا ہے تیری یاد بتوں کے خیال میں
ایسا دیا تھا کیوں مجھے پروردگار دل

آؤ جو میرے گھر میں تو سو جان سے کروں
چتون پر آنکھ صدقے ادا پر نثار دل

ہوتا نہیں ہے عید کو بھی غم غلط دلیرؔ
یاران رفتگاں کا بنا سوگوار دل

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse