ایسے حسیں کے عشق میں ہے بے قرار دل
ایسے حسیں کے عشق میں ہے بے قرار دل
صدقے ہیں جس کی ایک ادا پر ہزار دل
جب مانگتے ہیں سب صنم روزگار دل
اتنے کہاں سے لاؤں میں پروردگار دل
بیزار زندگی سے ہے لیل و نہار دل
جس روز سے حضور کو کرتا ہے پیار دل
کیا سوچتے ہو اس کو نشانہ بتاؤ تم
ہے ناوک مژہ کا تمہارے شکار دل
بوچھار ہو رہی ہے جو تیر نگاہ کی
سینہ ہے چاک چاک ہمارا فگار دل
غمزہ کو دوں کرشمۂ ناز و ادا کو دوں
کس طرح ایک دل کے بنیں تین چار دل
کیا کیا اٹھائیں ہجر صنم میں مصیبتیں
برسوں رہا ہے آٹھ پہر بے قرار دل
دفن اس میں کشتہ ہو کے ہوئیں کتنی حسرتیں
مدفن بنا ہے سینہ تو لوح مزار دل
زاہد خیال یار تو ہر دم ہے جاگزیں
کیونکر کروں میں حور جناں پر نثار دل
کرنے لگا ہے مجھ سے بہت کج ادائیاں
اب بت ہوا ہے جیسے ترا رازدار دل
ٹھہرا نہ ایک دم کبھی سوز فراق میں
سیماب وار اپنا رہا بے قرار دل
دیکھا کوئی حسین تو کیا کیا پھڑک اٹھا
بے چین ہو گیا مرا بے اختیار دل
بھولا ہے تیری یاد بتوں کے خیال میں
ایسا دیا تھا کیوں مجھے پروردگار دل
آؤ جو میرے گھر میں تو سو جان سے کروں
چتون پر آنکھ صدقے ادا پر نثار دل
ہوتا نہیں ہے عید کو بھی غم غلط دلیرؔ
یاران رفتگاں کا بنا سوگوار دل
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |