ایسی ہوئی سرسبز شکایت کی کڑی بات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسی ہوئی سرسبز شکایت کی کڑی بات
by منیرؔ شکوہ آبادی

ایسی ہوئی سرسبز شکایت کی کڑی بات
سبزے کی طرح کان میں اس گل کی پڑی بات

کیوں کر دہن تنگ سے ظاہر ہو کڑی بات
منہ آپ کا چھوٹا ہے نہ نکلے گی بڑی بات

گل رنگ ترے ہونٹھ ہوے بار سخن سے
اے جان اڑا لے گئی مسی کی دھڑی بات

تیرے سخن سخت میں ہے حسن نزاکت
کانوں کو ہوئی پنبۂ مہتاب کڑی بات

اس پیچ سے تم مجھ کو اڑاتے ہو دم نطق
زنجیر رم ہوش کی بنتی ہے کڑی بات

تقریر تری شاخ گل تازہ ہے اے مست
دیتی ہے کف بادہ میں پھولوں کی چھڑی بات

وصف در دنداں سے یہ بڑھ جاتے ہیں رتبے
رگ رگ کو بنا دیتی ہے موتی کی لڑی بات

ہر کان ہوا ہے سبد گل سے زیادہ
کیا پھول کے مانند ترے منہ سے جھڑی بات

دھوتا ہے سخن دل سے غبار غم دنیا
ہے گرد الم کے لئے ساون کی جھڑی بات

کیا مہر بنائی ترے یاقوت سخن کی
مانند نگیں ہم نے انگوٹھی میں جڑی بات

نقد سخن پاک دیا گرد قلق میں
گنجینہ کے مانند تہ خاک گڑی بات

جس روز میں گنتا ہوں ترے آنے کی گھڑیاں
سورج کو بنا دیتی ہے سونے کی گھڑی بات

استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse