ایسی کوئل نہ پپیہے کی ہے پیاری آواز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسی کوئل نہ پپیہے کی ہے پیاری آواز
by امداد علی بحر

ایسی کوئل نہ پپیہے کی ہے پیاری آواز
کیا بھلی لگتی ہے کانوں کو تمہاری آواز

جب مجھے تم نے پکارا یہ دعا دی میں نے
رہے مکے میں مدینے میں تمہاری آواز

آپ کے بول سنائے وہ ہمیں کیا قدرت
ایسی پیدا تو کرے کوئی ستاری آواز

سن کے بسمل ہوئے ہم نغمہ سرائی ان کی
نہیں معلوم چھری ہے کہ کٹاری آواز

بے سرے سامنے اس کے رہے تنبور و ستار
لا کے تاروں کے جواری نے سنواری آواز

اس طرح روئیے آنسو فقط آنکھوں سے بہیں
منہ سے نکلے نہ دم گریہ و زاری آواز

چٹکیوں میں نہ اڑا مجھ کو مغنی بتلا
ساز کے پردے میں کس کی ہے یہ پیاری آواز

ایسے نالے کیے ہم نے کہ گلا بیٹھ گیا
آئی آفت وہ گلے پر کہ سدھاری آواز

ناچ گانے میں وہ عالم ہے جو دیکھے وہ کہے
سربسر تم ہو پری شعلہ ہے ساری آواز

بحرؔ روئے ہو ضرور آج کسی کے لیے تم
سرخ سرخ آنکھیں بھی ہیں اور ہے بھاری آواز


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.