ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا
by حیدر علی آتش

ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا
صورت پیرہن تنگ نکل جاؤں گا

وہ نہیں ہوں کہ رکھائی سے جو ٹل جاؤں گا
آج جاتا تھا تو ضد سے تری کل جاؤں گا

شام ہجراں کسی صورت سے نہیں ہوتی صبح
منہ چھپا کر میں اندھیرے میں نکل جاؤں گا

کھینچ کر تیغ کمر سے کسے دکھلاتے ہو
ناف معشوق نہیں ہوں جو میں ٹل جاؤں گا

شب ہجر اپنی سیاہی کسے دکھلاتی ہے
کچھ میں لڑکا تو نہیں ہوں کہ دہل جاؤں گا

کوچۂ یار کا سودا ہے مرے سر کے ساتھ
پاؤں تھک تھک کے ہوں ہر چند کہ شل جاؤں گا

ضبط بیتابیٔ دل کی نہیں طاقت باقی
کوہ صبر اب یہ صدا دیتا ہے ٹل جاؤں گا

طالع بد کے اثر سے یہ یقیں ہے مجھ کو
تیری حسرت ہی میں اے حسن عمل جاؤں گا

چار دن زیست کے گزریں گے تأسف میں مجھے
حال دل پر کف افسوس میں مل جاؤں گا

شعلہ‌ رویوں کو نہ دکھلاؤ مجھے اے آنکھو
موم سے نرم مرا دل ہے پگھل جاؤں گا

حال پیری کسے معلوم جوانی میں تھا
کیا سمجھتا تھا میں دو دن میں بدل جاؤں گا

وہی دیوانگی میری ہے بہار آنے دو
دیکھ کر لڑکوں کی صورت کو بہل جاؤں گا

شعر ڈھلتے ہیں مری فکر سے آج اے آتشؔ
مر کے کل گور کے سانچے میں میں ڈھل جاؤں گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse