ایسی حالت نہ ہو کسی دل کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسی حالت نہ ہو کسی دل کی
by جمیلہ خدا بخش

ایسی حالت نہ ہو کسی دل کی
کیا کہوں ہائے بے بسی دل کی

لطف دیکھو کہ وہ سنورتا ہے
لے کے ہاتھوں میں آرسی دل کی

اپنی حالت سنائے وہ کیوں کر
کون سمجھے گا فارسی دل کی

یہ ستم دیکھیے وہ کہتا ہے
غیر ممکن ہے واپسی دل کی

زخم خنداں کو دیکھتے جاؤ
تم نے دیکھی نہیں ہنسی دل کی

دل کا آئینہ روئے عاشق ہے
اس سے ظاہر ہے بے کسی دل کی

اے جمیلہؔ بٹھاؤ حسرت کو
وہ بھی مہمان ہے اسی دل کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse