ایسا بنا دیا تجھے قدرت خدا کی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایسا بنا دیا تجھے قدرت خدا کی ہے
by بیخود دہلوی

ایسا بنا دیا تجھے قدرت خدا کی ہے
کس حسن کا ہے حسن ادا کس ادا کی ہے

چشم سیاہ یار سے سازش حیا کی ہے
لیلیٰ کے ساتھ میں یہ سہیلی بلا کی ہے

تصویر کیوں دکھائیں تمہیں نام کیوں بتائیں
لائے ہیں ہم کہیں سے کسی بے وفا کی ہے

انداز مجھ سے اور ہیں دشمن سے اور ڈھنگ
پہچان مجھ کو اپنی پرائی قضا کی ہے

مغرور کیوں ہیں آپ جوانی پر اس قدر
یہ میرے نام کی ہے یہ میری دعا کی ہے

دشمن کے گھر سے چل کے دکھا دو جدا جدا
یہ بانکپن کی چال یہ ناز و ادا کی ہے

رہ رہ کے لے رہی ہے مرے دل میں چٹکیاں
پھسلی ہوئی گرہ ترے بند قبا کی ہے

گردن مڑی نگاہ لڑی بات کچھ نہ کی
شوخی تو خیر آپ کی تمکیں بلا کی ہے

ہوتی ہے روز بادہ کشوں کی دعا قبول
اے محتسب یہ شان کریمی خدا کی ہے

جتنے گلے تھے ان کے وہ سب دل سے دھل گئے
جھیپی ہوئی نگاہ تلافی جفا کی ہے

چھپتا ہے خون بھی کہیں مٹھی تو کھولیے
رنگت یہی حنا کی یہی بو حنا کی ہے

کہہ دو کہ بے وضو نہ چھوئے اس کو محتسب
بوتل میں بند روح کسی پارسا کی ہے

میں امتحان دے کے انہیں کیوں نہ مر گیا
اب غیر سے بھی ان کو تمنا وفا کی ہے

دیکھو تو جا کے حضرت بیخودؔ نہ ہوں کہیں
دعوت شراب خانے میں اک پارسا کی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse