ایجاد غم ہوا دل مضطر کے واسطے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایجاد غم ہوا دل مضطر کے واسطے
by منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

ایجاد غم ہوا دل مضطر کے واسطے
پیدا جنوں ہوا ہے مرے سر کے واسطے

کرتے ہو فکر غافلو کیا گھر کے واسطے
دنیا میں سب مقیم ہیں دم بھر کے واسطے

ہر شے میں جو کہ دیکھتے ہیں جلوہ دوست کا
وہ لوگ سجدہ کرتے ہیں پتھر کے واسطے

اس بت نے ایک بات نہ مانی شب وصال
لاکھوں دیے خدا و پیمبر کے واسطے

سن کر پیام وصل میں قاصد سے جی اٹھا
ہے معجزہ ضرور پیمبر کے واسطے

مژگاں کو تیری ہم نے جگہ اپنے دل میں دی
زیبا یہ میان ہے اسی خنجر کے واسطے

لکھتا ہوں اس پری کی صفت چشم شوخ کی
تار نگاہ حور ہو مسطر کے واسطے

بالش کی جا ہے مجھ کو ترا سنگ آستاں
کافی ہے خاک در مرے بستر کے واسطے

جاتا ہوں چین کاکل عنبر فشاں کو میں
سودا خریدتا ہے مجھے سر کے واسطے

جتنے تھے ظلم سب وہ جفا کار کر چکا
باقی رہے نہ چرخ ستم گر کے واسطے

کرتا ہوں روز ہجر میں تدبیریں دوستو
کیا کیا تسلیٔ دل مضطر کے واسطے

ساقی شراب اشک ہے یاں جام چشم میں
احسان اٹھائیں کیوں مے و ساغر کے واسطے

اے سحرؔ قدرداں جو نہ ہو کوئی شعر کا
تو زندگی ہے موت سخنور کے واسطے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse