ایام شباب اپنے بھی کیا عیش اثر تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایام شباب اپنے بھی کیا عیش اثر تھے
by نظیر اکبر آبادی

ایام شباب اپنے بھی کیا عیش اثر تھے
کہتے ہیں جنہیں عیب وہ اس وقت ہنر تھے

دن رات وہ محبوب میسر تھے کہ جن کی
زلفیں الم شام تھیں رخ رشک سحر تھے

ساقی کے ادھر جام ادھر ناز و ادا سے
جادو نظراں خوش نگہاں پیش نظر تھے

محفل سے جو اٹھتے تھے ذرا ہم تو لپٹ کر
نازک بدناں مو کمراں دست و کمر تھے

ہم راہ گل انداموں کے ہو خرم و خنداں
باغ و چمن و گلشن و بستاں میں گزر تھے

کیا شور تھے کیا زور تھے ہر لحظہ اہا ہا
کیا ولولے کیا قہقہے بے خوف و خطر تھے

دکھلا کے جھمک جاتے رہے دم میں نظیرؔ آہ
کیا جانے وہ دن برق تھے یا مثل شرر تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse