اہل غم سے عشرت عالم کا ساماں ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اہل غم سے عشرت عالم کا ساماں ہو گیا
by ثاقب لکھنوی

اہل غم سے عشرت عالم کا ساماں ہو گیا
جب زمیں کی داغ ابھر آئے گلستاں ہو گیا

اپنی حد سے بڑھ کے جاتا کس طرف کو دل مرا
جان پڑتے ہی یہ مشت خاک بے جاں ہو گیا

عشق کے بعد اب حوادث کی ضرورت کیا رہی
آسماں دم لے مرے مرنے کا ساماں ہو گیا

حشر میں پہچان کر قاتل کا منہ تکنے لگا
جب ضرورت ہوش کی دیکھی تو حیراں ہو گیا

خفتگان خاک کتنا بے محل سوئے کہ اب
مجمع احباب اک خواب پریشاں ہو گیا

انقلاب آ کر مدد دیتے ہیں استعداد کو
کروٹیں بدلیں لہو نے اور انساں ہو گیا

راستہ وحشت کو آخر مل گیا تنگی میں بھی
یہ گریباں تھا جو دو ہاتھوں میں داماں ہو گیا

وسعت صحن جہاں کچھ کم نہ تھی اے عشق دوست
کیوں گھٹا اتنا کہ دل والوں کو زنداں ہو گیا

باغباں کی رائے میں میں بے حقیقت تھا مگر
بعد میرے آشیاں داغ گلستاں ہو گیا

رک چلا ہے بیچ میں خنجر الٰہی خیر ہو
دم نہ نکلے گا اگر قاتل پشیماں ہو گیا

ایک قطرہ بحر عصیاں کا تھا جو یوں سر چڑھا
پلتے پلتے دامن عالم میں طوفاں ہو گیا

جب کوئی آنسو مژہ پر آ کے چمکا شام غم
میں یہ سمجھا صبح کا تارا نمایاں ہو گیا

شکر شانے کا کروں یا صبر کو ڈھونڈوں کہیں
زلف تو سمٹی مگر ہاں دل پریشاں ہو گیا

کم سے کم پر آج راضی ہیں شہیدوں کے مزار
آپ ہنس دیں گے تو سمجھیں گے چراغاں ہو گیا

جس میں لاکھوں پھول تھے ثاقبؔ وہ باغ دل کشا
ایک ہی گردش میں گردوں کی بیاباں ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse