اہل جہاں کے ملنے سے ہم احتراز کر
Appearance
اہل جہاں کے ملنے سے ہم احتراز کر
بیٹھے ہیں گوشہ گیر ہو اس دل سے ساز کر
صورت اسی کی ہے متجلی ہر ایک میں
دیکھے جو کوئی چشم حقیقت کو باز کر
سجدہ جسے کریں ہیں ہر سو ہے جلوہ گر
جیدھر ترا مزاج ہو اودھر نماز کر
گو آسمان پر بھی اڑا تو تو کیا ہوا
میں کون ہوں کہاں ہوں یہ بھی امتیاز کر
کل ایک پل بھی تو نہ تھما اس کے روبرو
اے اشک کیا ملا تجھے افشائے راز کر
ؔجوشش ہو جب تلک کہ حقیقت سے تجھ کو راہ
تب تک برائے شغل تو سیر مجاز کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |