اگر ہے منظور یہ کہ ہووے ہمارے سینے کا داغ ٹھنڈا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر ہے منظور یہ کہ ہووے ہمارے سینے کا داغ ٹھنڈا
by نظیر اکبر آبادی

اگر ہے منظور یہ کہ ہووے ہمارے سینے کا داغ ٹھنڈا
تو آ لپٹئے گلے سے اے جاں جھمک سے کر جھپ چراغ ٹھنڈا

ہم اور تم جاں اب اس قدر تو محبتوں میں ہیں ایک تن من
لگایا تم نے جبیں پہ صندل ہوا ہمارا دماغ ٹھنڈا

لبوں سے لگتے ہی ہو گئی تھی تمام سردی دل و جگر میں
دیا تھا ساقی نے رات ہم کو کچھ ایسے مے کا ایاغ ٹھنڈا

درخت بھیگے ہیں کل کے مینہ سے چمن چمن میں بھرا ہے پانی
جو سیر کیجے تو آج صاحب عجب طرح کا ہے باغ ٹھنڈا

وہی ہے کامل نظیرؔ اس جا وہی ہے روشن دل اے عزیزو
ہوا سے دنیا کی جس کے دل کا نہ ہووے ہرگز چراغ ٹھنڈا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse