اگر ہم نہ تھے غم اٹھانے کے قابل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر ہم نہ تھے غم اٹھانے کے قابل
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

اگر ہم نہ تھے غم اٹھانے کے قابل
تو کیوں ہوتے دنیا میں آنے کے قابل

کروں چاک سینہ تو سو بار لیکن
نہیں داغ دل یہ دکھانے کے قابل

ملیں تم سے کیونکر رہے ہی نہیں ہم
بلانے کے قابل نہ آنے کے قابل

چھٹے بھی قفس سے تو کس کام کے ہیں
نہیں جب چمن تک بھی جانے کے قابل

بجز اس کے تھے خاک پہلے بھی اے چرخ
نہ تھے خاک میں پھر ملانے کے قابل

کیا ترک دنیا میں جب تو یہ سمجھے
کہ دنیا نہیں دل لگانے کے قابل

وہ آئے دم نزع کیا کہہ سکیں
نہیں ہونٹ تک بھی ہلانے کے قابل

خدایا یہ رنج اور یہ ناصبوری
نہ تھے ہم تو اس آزمانے کے قابل

رہے ہم نہ کچھ مصطفیٰ خاں کے غم میں
نہ فکر سخن نے پڑھانے کے قابل

نہ چھوڑیں گے محبوب الٰہی کے در کو
نہیں گو ہم اس آستانے کے قابل

ہمیں قید کرنے سے کیا نفع صیاد
نہ تھے دام میں ہم تو لانے کے قابل

نہ بال منقش نہ پرہائے رنگیں
نہ آواز خوش کے سنانے کے قابل

ہوئے ہیں وہ ناقابلوں میں شمار اب
جنہیں مانتے تھے زمانے کے قابل

وہ آزردہؔ جو خوش بیاں تھے نہیں اب
اشارے سے بھی کچھ بتانے کے قابل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse