اگر گل کی کوئی پتی جھڑی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اگر گل کی کوئی پتی جھڑی ہے
by رشید لکھنوی

اگر گل کی کوئی پتی جھڑی ہے
تو سو سو بار بلبل گر پڑی ہے

نظر کیا جائے سوئے شیشہ و جام
ہماری آنکھ ساقی سے لڑی ہے

یہ ہے جوش بہار ان کے چمن میں
کہ ہر اک شاخ پھولوں کی چھڑی ہے

سنی رفعت سلیماں کی تو بولے
ہماری اک انگوٹھی گر پڑی ہے

تمہاری زلف سے کم ہے شب ہجر
مگر روز قیامت سے بڑی ہے

اک آنے کا ہے اک جانے کا ہنگام
یہ قصہ زندگی کا دو گھڑی ہے

نہیں ہٹتی تمہارے چہرے سے زلف
یہ شاید بوسہ لینے پر اڑی ہے

ہزاروں داغ لاکھوں حسرتیں ہیں
ہمارے دل کی بھی بستی بڑی ہے

ہوا کیا جلد خاک اپنا تن زار
جہاں ہم تھے وہاں مٹی پڑی ہے

مرے ہیں در پہ ہم وہ پوچھتے ہیں
یہ کس کی لاش رستے میں پڑی ہے

جو دیکھی ہے نگاہ مست ساقی
تو بجلی لڑکھڑا کے گر پڑی ہے

جو اپنا مال ہوگا خیر ہوگا
رشیدؔ اب تو ہمیں دل کی پڑی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse